باجوڑ میں سیاست کا خونی کھیل جاری تحریر:۔ محمد بلال یاسر

30127636_1823151187989570_8566699476058636288_n.jpgپاکستان میں عشروں سے کھیلا جانے والا سیاست اور جمہوریت کا کھیل ابھی جاری ہے، ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس کھیل کا حصہ بن چکی ، تاریخ کی کتابوں میں درج کہانیوں کی طرح پاکستان میں بھی سیاست کی کہانی اورکھیل خونی ہے، اس کھیل میں دو طرح کے کھلاڑی ہیں، ایک وہ ہیں جو صرف لطف اندوز ہونے کے لئے کھیلتے ہیں مگر دوسرے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، جو لطف اندوز ہونے کے لئے کھیلتے ہیں وہ چوکے چھکے بھی لگاتے ہیں مگر جب انہیں کارڈ دکھایا جاتا ہے تو وہ خاموشی سے میدان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ملک پاکستان کا ایک حصہ جس کچھ عرصہ قبل علاقہ غیر یعنی فاٹا کہا جاتا تھا جہاں پاکستانی قانونی اور آئین کی عملداری نہیں تھی بلکہ یہاں برطانوی سامراج کا چھوڑا ہوا نادر اور قیمتی ورثہ ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائم ریگولیشن نافذ تھا ، جس میں ظالم اور مظلوم کے درمیان تمیز نہ ہونے کے برابر تھا بلکہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ تھا۔ لیکن اب گذشتہ ایک مہینہ سے یہ علاقے بھی پاکستان کے خیبرپختونخوا صوبے میں ضم ہوجانے کے بعد پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس وقت ملک کے دیگر حصوں کے بنسبت ان علاقوں جن میں باجوڑ بھی شامل ہیں میں صرف قومی اسمبلی کے الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں ، صوبائی الیکشن کیلئے اگلے سال اپریل کے مہینے میں کرائے جانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
باجوڑ میں گزشتہ سالوں سے زیادہ تیزی اس بار آئی ہے آزاد امیدواران بھی پارٹیوں کے امیدواروں کی طرح دن رات ایک کرکے الیکشن کمپین چلانے میں مصروف ہے لیکن شعور اور تعلیم سے لاعلم ان سیاسی ورکروں اور قائدین نے ایک دوسرے کے عزتوں اور گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا بلکہ ہر جلسے میں تقریر کا محور ہی دوسروں کی غیبت اور بہتان دارزیں شامل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کارکن بھی اپنے پٹڑی سے اتر گئے ہیں اور گذشتہ ایک مہینے کے دوران کئی ایسے واقعات سرز ہوگئے جس سے سیاست کے بے رحم موجوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پہلا واقعہ جب پی ٹی آئی نے حلقہ این اے 41 کیلئے گل ظفر خان باغی کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جس کے خوشی اور جشن کے سلسلے میں ان کے رہائش گاہ پر اگلے روز جو وہاں باجوڑ کے سیاست کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جب گولیاں چل جانے سے گل ظفر خان باغی کے قریبی ساتھی ممتاز سکنہ ملنگی جاں بحق جبکہ پانچ دیگر ساتھی زخمی ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی باجوڑ میں ایک کہرام سا مچ گیا لیکن کچھ دن کے خاموشی کے بعد ایک بار پھر اس کھیل میں اتنی تیزی آگئی کہ کارکن ایک دوسرے پر کیا مخالف پارٹیوں کے قائدین پر حملہ آور ہونے کو تیار ہیں۔ دو روز قبل تحصیل ماموند کے علاقے مینہ میں دو سیاسی پارٹیوں کا جھنڈا لہرانے پر جھگڑا تین افراد زخمی ہوگئے جبکہ گذشتہ کل تحصیل واڑہ سفرے گاؤں کے رہائشی فصیح اللہ بجلی کے کھمبے میں جھنڈا لگاتے ہوئے بجلی کا کرنٹ لگنے سے اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ۔ یقیناً یہ اس واقعات ہیں جو ہماری جہالت ، عدم سیاسی پختگی اور کم عملی پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ تو اپنے کارکنوں کو کوئی واضح پیغام ، منشور اور ایجنڈا دیا جاتا ہے اور نہ ہوئ کوئی تربیت یا بہتر ماحول جس کے ایسے سنگین نتائج رونما ہوتے ہیں۔ الیکشن میں ایک ماہ سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے آگے دیکھتے ہیں کہ یہ خونی کھیل ہمیں اور کتنے زخم دیکر اگلے پانچ سالوں کیلئے رفو چکر ہوجاتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائیں۔