آپ کسی بھی مجلس میں جائے ہر جگہ تمام خرابیوں کا قصوروار لیڈروں اور حکمرانوں کو ٹہرایا جاتا ہے لیکن بحیثیت معاشرے کے ایک فرد کبھی ہم نے اپنے حصے کے کارناموں پر نظر ڈالی ہے۔ روزانہ دفتر آتے ہوئے میری ایک ریڑھی والے پر نظر پڑھتی ہے جو باشرع اور دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک لگتا ہے وہ یہی نعرے لگاتا ہے کہ کوہاٹ کے امرود سستے ریٹ میں لے لو خالص کوہاٹی امرود اور ریڑھی کے اوپر تین چار کاٹے ہوئے خالص کوہاٹی امرود کے نمونے رکھے ہوئے ہوتے ہیں (معلوم نہیں کہ وہ بھی اصلی یا رنگ کا کمال ہے) ، کئی بار باجوڑ میں اس کوہاٹی امرود کا ذائقہ چکھنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن وقت کی کمی کے باعث موقع نہیں ملا،
گذشتہ کل یہاں سے امرود خریدی اور پوچھا بھی بھائی کوہاٹی امرود ہیں انہوں نے کہا ہاں بھی باکل ہم دو نمبری نہیں کرتے ، امرود خرید کر میں دفتر پہنچا اور اپنے ساتھی سمیع اللہ کے ساتھ امرود کاٹ کر کھانے بیٹھا ، ایک ایک امرود کٹتا رہا اور میں سوچ کے وادی میں ڈوبنے لگا معاملہ برعکس امرود عام لوکل کوہاٹی سرخ امرود کا نام و نشان تک نہیں لیکن میں نے خاموشی اختیار کی ایک آدھ امرود کھانے کے بعد سائڈ پے ہوگیا
اگلے روز پھر اور آج پھر اپنا یقین پختہ کرنے کیلئے اسی ریڑھی والے کے پاس رکا امرود خریدے اور از راہ مزاق پوچھا بھائی دکھانے کے اور کھانے کے اور والا معاملہ تو نہیں ، اس نے کہا نہیں باکل بھی نہیں ایک نمبر ، ہم نے پھر آزمانے کا سوچا پھر وہی نتیجہ ، دفتر پہنچ کر سوچنے لگا کہ یار آخر ہم اپنے کرتوت کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے جو کام ہمارے ذمے ہے اس میں ہم کتنی کرپشن کرتے ہیں کتنا لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور کتنا جھوٹ بولتے ہیں ؟؟؟ بات اختیار کی ہے میرے پاس جتنا اختیار ہے میں اتنا ہی غلط کام کرنے میں مصروف اور جس کے پاس ملک کا اختیار وہ اتنے بڑے معاملات پر ہاتھ صاف کرتا ہے ۔ معزز احباب معاشرے تب ٹھیک ہوگا جب ہم خود سے خود کو ٹھیک کرنے شروع کردیں خود غلط کام کرنا چھوڑ دیں یہ ابتدا ہوگی انشا اللہ ہمارے لیڈروں کو بھی اللہ توفیق دے دیگا۔ لیکن جب ہم پکے دو نمبر ہونگے تو ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہونگے۔ آئیے اس چھوٹے سے واقعے سے ہر ایک اپنی گریباں میں جھانک کر خود میں موجود غلطیوں کو نکالنا اور خود کو ٹھیک کرنا شروع کردیں۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائیں ۔