گذشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک نوجوان خوب رو لڑکی جو شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی فتح کا نشان بناتے ہوئے فلسطین کے علاقے سے گذر رہی تھی کی تصویر پر نظر پڑی غور کیا تو فلسطین میں مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی شوخ شیرنی عہد التمیمی تھی۔ جسے اسرائیلی غاصب حکومت نے 8ماہ بعد پابند سلاسل رکھنے کے بعد چھوڑ دیا۔ عہد التمیمی اپنے لباس سے جو تصویر پیش کرتی ہے قصہ اس کے برعکس ہے نشاۃ ثانیہ میں ایسے نوجوان لڑکیوں کے قصے سن کر قرن اولیٰ کے جری خواتین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
عہد التمیمی فلسطین کے عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے مغربی کنارے کے نزدیک ایک گاؤں نبی صالح کی رہنے والی ہے ۔ اب اس کی عمر16،17سال ہے۔ عہد التمیمی کا بچپن اسرائیل کے غاصبانہ اور تسلط پسندانہ عزائم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ماں باپ کے زیر سایہ گزرا ہے۔ عہد کے والد باسم التمیمی کا شمار اسرائیل کے خلاف وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں مجاہدین میں نمایاں ترین ہے۔
گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسرائیلی غاصب فوج نے ان کے گھر کے سامنے جب اسکے کزن کو احتجاج کرنے پر مار مار کر زخمی کردیا تھا اور ان کے گھر پر دھاو بولنے کی کوشش کی تو عہد التمیمی ان غاصب فوجیوں کو دھکے کر جب باہر نکال چکی تواس دوران ان کا غصہ سرچڑھ چکا تھا اس شیرنی لڑکی نے اپنے گھر کے سامنے موجود ان غاصبوں میں سے ایک فوجی پر تھپڑوں کی بارش کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔
اس واقعے کی فوٹیج نشر ہوتے ہی عہد پر مقدمہ چلا اور بالآخر اسے آٹھ ماہ کیلئے پابند سلاسل کیا گیا۔ جیل کے سلاخیں عہد کا حوصلہ کمزور نہ کرسکی تھی جب اسے جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے پوچھا تم نے اس باوَردی فوجی کو تھپڑ کیسے مارا؟ عہد نے کہا میری ہتھکڑیاں کھول دو تاکہ عملاً بتاؤں کہ کیسے مارا۔
جینز اور شرٹ میں ملبوس، اپنے الجھے ہوئے بالوں کو یک جا رکھنے کے لیے ربر بینڈ کے ذریعے چوٹی بنائی ہوئی، گردن کے گرد مزاحمت کا نشان رومال لپیٹے دیکھنے ہی میں لاابالی لگنے والی، سنہرے گھنگھریالے بالوں والی استقامت کا پہاڑ عہد التیمی ہے جس نے اپنے بچپن سے اپنے والد کوآزادی کیلئے مزاحمت کرتے دیکھ کر جوان ہوئی تو مزاحمت گویا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا۔
اس سے قبل ان کے والد باسمی التمیمی کو اسرائیل کی جانب سے کو مارچ 2011 میں عوام کو پرتشدد مظاہروں اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ پر اکسانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ باسم کی گرفتاری پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ باسم کا جرم کیا تھا، یہی کہ وہ اپنی دھرتی پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کئی سال تک ہر ہفتے مغربی کنارے کے علاقے میں پُرامن مظاہروں کا اہتمام کرتا رہا ہے۔ وہ پُرامن تھا اور احتجاج کررہا تھا جس کا حق دنیا کے ہر انسان کو حاصل ہے۔
کسی قابل اعتراض سرگرمی کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یورپی یونین کی جانب سے اس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل میں مظلوم کی آواز سننے کے لیے کوئی در نہیں کُھلتا، اس لیے اس نے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے 2011 میں باسم کو گرفتار کیا اور ایک مرتبہ نہیں، ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔
جرأت کا استعارہ بننے والی، سنہرے بالوں والی بہادر و بے باک عہد التمیمی اسی بہادر باپ باسم التمیمی کے چار بچوں میں سے ایک ہے۔ عہد کے بھائی واعد التمیمی کو بھی 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012 سے جب عہد التمیمی کی عمر صرف گیارہ سال تھی، اسے عالمی طور ایک ممتاز فلسطینی مزاحمت کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسے 11 سال کی عمر میں ہی صدر محمود عباس نے بہادری اور مزاحمت پر ایوارڈ سے نوازا، اور پھر دسمبر 2012 میں ترکی کی ایک میونسپل کونسل کی جانب سے عہد کو اس کی بہادری پر حنظلہ ایوارڈ دیا گیا۔
اگست 2015 میں جب عہد کے 12 سالہ بھائی کو اسرائیلی فوج گرفتار کرنے آئی تو اس وقت بنائی گئی ایک ویڈیو میں عہد کو اسرائیلی فوج سے الجھتے، جھگڑتے اور ایک فوجی کے ہاتھ پر کاٹتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ستمبر 2017 میں عہد التمیمی نے یورپی پارلیمنٹ میں فلسطین کی عوامی مزاحمت میں عورتوں کا کردار پر منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں اپنے ملک کی نمائندگی بھی کی۔
گذشتہ سال نومبر میں فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ عہد التمیمی کی ایک جھڑپ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ، جس میں عہد، اس کی کزن اور والدہ اسرائیل کی فوجیوں سے جھگڑنے کا منظر دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں عہد بلاخوف و خطر اسرائیلی فوج کے سپاہیوں سے الجھتی اور ایک فوجی افسر کے منہ پر تھپڑ مارتے دکھائی گئی ہے۔ اس ویڈیو فوٹیج میں عہد ہتھیاروں سے مسلح فوجی جوانوں کو عہد اپنے مُکّوں، تھپڑوں اور ٹھوکروں سے نشانہ بنا رہی ہے۔عہد کی طرح فلسطین کا ہر بچہ، جوان، مرد و خاتون کم و بیش اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔
عہد التمیمی اپنی قوم کے لیے بہت خاص بھی ہے اور ان کے لیے ایک ہیروئن کی طرح قابلِ عزت اور جرأت کا نشان بھی۔ فلسطین کا ہر بچہ اس کی جرأت و بے باکی سے مہمیز پاکر عہد التمیمی بننے کا منتظر ہے۔ آج وہ دنیا بھر کے لیے آزادی سے جینے کے بنیادی حق کی جدوجہد کی ایک تاب ناک علامت بن چکی ہے۔عہد پر 12 الزامات عاید کیے گئے تھے یہ الزامات اسے کئی سال تک جیل کے سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے کافی تھے لیکن عہد صرف 8ماہ بعد سزا کاٹ کر رہا ہوگئی۔ مغربی کنارے میں واقع اسرائیل کی ایک جیل میں قائم خصوصی فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور اسے 8 ماہ سزادی گئی تھی ۔
عہد التمیمی کی گرفتاری کے بعد اس کے والد باسم نے اپنی بیٹی کو اسرائیلی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے والی ہیروئن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس پر فخر ہے۔ عہد کی والدہ ناریمان کو بھی اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ عہد سے ملنے پولیس اسٹیشن گئی تھیں۔
گذشتہ روز میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اسرائیلی جیل کے ترجمان اساف لیراتی نے بتایا کہ عہد کی سزا کی نوبت پورا ہونے پر ایک گاڑی کے ذریعے اسرائیلی علاقے سے چیک پوسٹ عبور کراکے فلیسی علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کے کے حوالے کیا گیا۔ عہد کے موقع پر فلسطینی گروپ کے جانب سے احد تمیمی اور ان کی والدہ ناریمان کا شاندار استقبال کیا گیا۔عہد تمیمی نے رہائی کے بعد سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کے قبر پر حاضری دی اس موموقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عہد نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی جائے گی۔ رہائی کے بعد عہد نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات بھی کی۔اس موقع پر فلسطینی صدر نے تحریک آزاد ی کیلئے ان کے جذبے کو سراہا ۔
عہد التمیمی کو شاید قید کیا جاسکتا ہے، اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے، لیکن۔۔۔۔۔ یہ صہیونی حکمراں بھی جانتے ہیں کہ وہ عہد کے سفر کو روک نہیں سکتے، اس کی سوچ کو قید نہیں کرسکتے، اس کے جذبے کو پابند سلاسل نہیں بنایا جاسکتا، اس کی جلائی ہوئی شمعوں کو گُل نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ عہد آزادی کی شمع جلا کر جو چلی ہے تو ہزاروں عہد ان کے سوچ کے لشکر میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان کا کارواں فلسطینی پر غاصب افواج کے اخراج اور فلسطین کے آزادی تک جاری رہے گا۔ ہمیں ایسے بہنوں پر فخر ہے ہم ان کے لیے ہر وقت دست بدعا ہیں ، عہد تم ہزار سال جیو۔۔۔۔۔