میری جدوجہد ابھی رُکی نہیں ابھی ختم نہیں ہوئی ۔عہد التمیمی تحریر:۔ محمد بلال یاسر

گذشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک نوجوان خوب رو لڑکی جو شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی فتح کا نشان بناتے ہوئے فلسطین کے علاقے سے گذر رہی تھی کی تصویر پر نظر پڑی غور کیا تو فلسطین میں مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی شوخ شیرنی عہد التمیمی تھی۔ جسے اسرائیلی غاصب حکومت نے 8ماہ بعد پابند سلاسل رکھنے کے بعد چھوڑ دیا۔ عہد التمیمی اپنے لباس سے جو تصویر پیش کرتی ہے قصہ اس کے برعکس ہے نشاۃ ثانیہ میں ایسے نوجوان لڑکیوں کے قصے سن کر قرن اولیٰ کے جری خواتین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

55-5-620x346.jpgعہد التمیمی فلسطین کے عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے مغربی کنارے کے نزدیک ایک گاؤں نبی صالح کی رہنے والی ہے ۔ اب اس کی عمر16،17سال ہے۔ عہد التمیمی کا بچپن اسرائیل کے غاصبانہ اور تسلط پسندانہ عزائم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ماں باپ کے زیر سایہ گزرا ہے۔ عہد کے والد باسم التمیمی کا شمار اسرائیل کے خلاف وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں مجاہدین میں نمایاں ترین ہے۔

1105555803-1q.jpgگذشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسرائیلی غاصب فوج نے ان کے گھر کے سامنے جب اسکے کزن کو احتجاج کرنے پر مار مار کر زخمی کردیا تھا اور ان کے گھر پر دھاو بولنے کی کوشش کی تو عہد التمیمی ان غاصب فوجیوں کو دھکے کر جب باہر نکال چکی تواس دوران ان کا غصہ سرچڑھ چکا تھا اس شیرنی لڑکی نے اپنے گھر کے سامنے موجود ان غاصبوں میں سے ایک فوجی پر تھپڑوں کی بارش کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔

d16e643cad5615c92d01eec9b71a1b0f.jpg اس واقعے کی فوٹیج نشر ہوتے ہی عہد پر مقدمہ چلا اور بالآخر اسے آٹھ ماہ کیلئے پابند سلاسل کیا گیا۔ جیل کے سلاخیں عہد کا حوصلہ کمزور نہ کرسکی تھی جب اسے جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے پوچھا تم نے اس باوَردی فوجی کو تھپڑ کیسے مارا؟ عہد نے کہا میری ہتھکڑیاں کھول دو تاکہ عملاً بتاؤں کہ کیسے مارا۔

downloadجینز اور شرٹ میں ملبوس، اپنے الجھے ہوئے بالوں کو یک جا رکھنے کے لیے ربر بینڈ کے ذریعے چوٹی بنائی ہوئی، گردن کے گرد مزاحمت کا نشان رومال لپیٹے دیکھنے ہی میں لاابالی لگنے والی، سنہرے گھنگھریالے بالوں والی استقامت کا پہاڑ عہد التیمی ہے جس نے اپنے بچپن سے اپنے والد کوآزادی کیلئے مزاحمت کرتے دیکھ کر جوان ہوئی تو مزاحمت گویا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا۔

EDC6B77D-8E80-4592-AB54-B8A02ED50C71-560x420.jpegاس سے قبل ان کے والد باسمی التمیمی کو اسرائیل کی جانب سے کو مارچ 2011 میں عوام کو پرتشدد مظاہروں اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ پر اکسانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ باسم کی گرفتاری پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ باسم کا جرم کیا تھا، یہی کہ وہ اپنی دھرتی پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کئی سال تک ہر ہفتے مغربی کنارے کے علاقے میں پُرامن مظاہروں کا اہتمام کرتا رہا ہے۔ وہ پُرامن تھا اور احتجاج کررہا تھا جس کا حق دنیا کے ہر انسان کو حاصل ہے۔

FB_IMG_1513668207079.jpgکسی قابل اعتراض سرگرمی کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یورپی یونین کی جانب سے اس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل میں مظلوم کی آواز سننے کے لیے کوئی در نہیں کُھلتا، اس لیے اس نے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے 2011 میں باسم کو گرفتار کیا اور ایک مرتبہ نہیں، ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔

images (2).jpgimages (1).jpgجرأت کا استعارہ بننے والی، سنہرے بالوں والی بہادر و بے باک عہد التمیمی اسی بہادر باپ باسم التمیمی کے چار بچوں میں سے ایک ہے۔ عہد کے بھائی واعد التمیمی کو بھی 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012 سے جب عہد التمیمی کی عمر صرف گیارہ سال تھی، اسے عالمی طور ایک ممتاز فلسطینی مزاحمت کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسے 11 سال کی عمر میں ہی صدر محمود عباس نے بہادری اور مزاحمت پر ایوارڈ سے نوازا، اور پھر دسمبر 2012 میں ترکی کی ایک میونسپل کونسل کی جانب سے عہد کو اس کی بہادری پر حنظلہ ایوارڈ دیا گیا۔

images (4).jpgاگست 2015 میں جب عہد کے 12 سالہ بھائی کو اسرائیلی فوج گرفتار کرنے آئی تو اس وقت بنائی گئی ایک ویڈیو میں عہد کو اسرائیلی فوج سے الجھتے، جھگڑتے اور ایک فوجی کے ہاتھ پر کاٹتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ستمبر 2017 میں عہد التمیمی نے یورپی پارلیمنٹ میں فلسطین کی عوامی مزاحمت میں عورتوں کا کردار پر منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں اپنے ملک کی نمائندگی بھی کی۔

images (5)گذشتہ سال نومبر میں فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ عہد التمیمی کی ایک جھڑپ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ، جس میں عہد، اس کی کزن اور والدہ اسرائیل کی فوجیوں سے جھگڑنے کا منظر دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں عہد بلاخوف و خطر اسرائیلی فوج کے سپاہیوں سے الجھتی اور ایک فوجی افسر کے منہ پر تھپڑ مارتے دکھائی گئی ہے۔ اس ویڈیو فوٹیج میں عہد ہتھیاروں سے مسلح فوجی جوانوں کو عہد اپنے مُکّوں، تھپڑوں اور ٹھوکروں سے نشانہ بنا رہی ہے۔عہد کی طرح فلسطین کا ہر بچہ، جوان، مرد و خاتون کم و بیش اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔

images (6).jpgعہد التمیمی اپنی قوم کے لیے بہت خاص بھی ہے اور ان کے لیے ایک ہیروئن کی طرح قابلِ عزت اور جرأت کا نشان بھی۔ فلسطین کا ہر بچہ اس کی جرأت و بے باکی سے مہمیز پاکر عہد التمیمی بننے کا منتظر ہے۔ آج وہ دنیا بھر کے لیے آزادی سے جینے کے بنیادی حق کی جدوجہد کی ایک تاب ناک علامت بن چکی ہے۔عہد پر 12 الزامات عاید کیے گئے تھے یہ الزامات اسے کئی سال تک جیل کے سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے کافی تھے لیکن عہد صرف 8ماہ بعد سزا کاٹ کر رہا ہوگئی۔ مغربی کنارے میں واقع اسرائیل کی ایک جیل میں قائم خصوصی فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور اسے 8 ماہ سزادی گئی تھی ۔

images (7).jpgعہد التمیمی کی گرفتاری کے بعد اس کے والد باسم نے اپنی بیٹی کو اسرائیلی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے والی ہیروئن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس پر فخر ہے۔ عہد کی والدہ ناریمان کو بھی اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ عہد سے ملنے پولیس اسٹیشن گئی تھیں۔

Pic-1گذشتہ روز میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اسرائیلی جیل کے ترجمان اساف لیراتی نے بتایا کہ عہد کی سزا کی نوبت پورا ہونے پر ایک گاڑی کے ذریعے اسرائیلی علاقے سے چیک پوسٹ عبور کراکے فلیسی علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کے کے حوالے کیا گیا۔ عہد کے موقع پر فلسطینی گروپ کے جانب سے احد تمیمی اور ان کی والدہ ناریمان کا شاندار استقبال کیا گیا۔عہد تمیمی نے رہائی کے بعد سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کے قبر پر حاضری دی اس موموقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عہد نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی جائے گی۔ رہائی کے بعد عہد نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات بھی کی۔اس موقع پر فلسطینی صدر نے تحریک آزاد ی کیلئے ان کے جذبے کو سراہا ۔

images (9).jpg عہد التمیمی کو شاید قید کیا جاسکتا ہے، اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے، لیکن۔۔۔۔۔ یہ صہیونی حکمراں بھی جانتے ہیں کہ وہ عہد کے سفر کو روک نہیں سکتے، اس کی سوچ کو قید نہیں کرسکتے، اس کے جذبے کو پابند سلاسل نہیں بنایا جاسکتا، اس کی جلائی ہوئی شمعوں کو گُل نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ عہد آزادی کی شمع جلا کر جو چلی ہے تو ہزاروں عہد ان کے سوچ کے لشکر میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان کا کارواں فلسطینی پر غاصب افواج کے اخراج اور فلسطین کے آزادی تک جاری رہے گا۔ ہمیں ایسے بہنوں پر فخر ہے ہم ان کے لیے ہر وقت دست بدعا ہیں ، عہد تم ہزار سال جیو۔۔۔۔۔ images (3)

باجوڑ میں الیکشن اور عام آدمی کی مشکلات تحریر:۔ بلال یاسر

34721595_1848811588756863_807261424228237312_n.jpgتقریب ڈیڑھ ماہ قبل سابقہ فاٹا کا خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق ہوجانے کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے اگر چہ صرف قومی اسمبلی کے لیے میدان گرم ہے لیکن سابقہ الیکشن کے برعکس اس بار الیکشن میں مشرقی روایات و اقدار اور سیاسی اقدار کا جنازہ نکالا گیا۔ سیاستدانوں کے جانب سے ایک دوسروں کے عزتوں سے کھلواڑ تو جاری ہی ہے لیکن اس دوران اپنے کارکنوں کو صبروتحمل کے بجائے سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اب آج سے اس دنگل یعنی الیکشن کمپین کا خاتمہ ہوجائے گا۔
WhatsApp Image 2018-07-23 at 2.42.51 AM(1).jpegلیکن باجوڑ میں گذشتہ ماہ سے شروع ہونے والے الیکشن کمپین سے عام آدمی کی پریشانیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں کمی آنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ تین دن سے لوکل ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے اولاً تو جتنی گاڑیاں سیاسی پارٹیوں کو درکار تھی وہ انہوں نے الیکشن تک بُک کروالی ہے جبکہ باقی گاڑیوں جن شخصی اور گھریلوں استعمال کی گاڑیاں مقامی انتظامیہ نے الیکشن عملہ اور سامان اپنے مقررہ جگہوں پر پہنچانے کیلئے اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ جس کے باعث مریضوں ، سرکاری اور غیرسرکاری نوکر پیشہ افراد ، ہسپتال اور بازار جانے کیلئے عوام کو ٹرانسپورٹ کی دشواریوں میں اضافہ ہوچکا ہے ، کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر عوام مجبور ۔
WhatsApp Image 2018-07-23 at 2.42.51 AM.jpegالیکشن کمپین کے باعث تجارتی مراکز کی رونق بھی ماند پڑ گئی ہے جس کے باعث عام آدمی کیلئے الیکشن کسی عذاب سے کم نہیں ، عام آدامی کو منتخب لیڈر کچھ دے نہ دیں لیکن اس کا موجودہ کاروبار تباہ ، اس کو ٹرانسپورٹ جیسے بنیادوں سے سہولت سے کئی کئی دنوں کیلئے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ اگر الیکشن کرانا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے تو پھر الیکشن میں عام آدمی کو جن مشکلات سے دوچار کیا جاتا ہے اس کا سد باب ضروری ہے۔

پختون قوم کی ضعیف الاعتقادی انتخاب:۔ بلال یاسر

WhatsApp Image 2018-07-06 at 2.41.31 AM
گذشتہ روز ایک دوست کی دعوت پر ان کے ہاں گیا ، اپنے ضروری امور سے فراغت کے بعد ایک شخص کا انتظار کرنے میں کچھ دیر ہوگئی اسی دوست کے الماری میں رکھی کتاب فخر افغان باچا خان کی سوانح (میری زندگی اور جدوجہد ) پڑھنے کیلئے اٹھائی اور جہاں سے کتاب کھولی تو یہ نصیحت آموز واقعہ اسی صفحے پر لکھا تھا ، خلاصے کے ساتھ آپ کی نظر۔
باچا خان نے صفحہ نمبر 100 پر لکھا ہے کہ انگریز حکومت ہماری تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی کہ ہم نے پناہ کے خاطر باجوڑ کا انتخاب کیا ، پہلے ہم زگئی آئے اس کے بعد تاریخی گاؤں کٹکوٹ گئے ، چھپ چھپ کر رہتے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو جب لوگوں کا آنا جانا زیادہ محسوس ہوا اور یہاں ٹہرنے کا عرصہ طویل ہونے لگا تب میں نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد اسی مسجد کے ایک کونے میں چلہ کیلئے الگ چادر لٹکائی ، اس گاؤں کے لوگوں تعلیم اور دینی لحاظ سے بالکل بہرے تھے ایک دن ایک عورت میرے پاس بچہ لیکر آئ ان کا گمان تھا کہ میں کوئی ولی اللہ ہوں ، اس عورت کے گود میں بچہ اس نے عاجزی کے ساتھ کہا کہ اس بچے کے تین سال ہونے والے ہیں لیکن ابھی تک یہ دودھ نہیں چھوڑتا اگر میں اسے دودھ نہ پلاؤں تو چیختا چلاتا ہے ، آپ اس کیلئے دعا کریں تاکہ اس کا دودھ چھوٹے ۔ میں نے کہا کہ سرخ مرچ خوب پیس کر پستان پر لگاؤ امید ہے کہ یہ دودھ چھوڑ دے گا ، عورت چلی گئی اور اس طریقے پر عمل کیا اگے دن شہد کا بھرا ہوا کٹورہ ہاتھ میں لی آئی اور بہت خوش تھی کہنے لگی کہ آپ کی دعا سے بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا میں پلانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وہ کتراتا ہے۔ اس کو وہ لوگ میری کرامت سمجھ رہے تھے حالانکہ یہ کرامت نہیں تھی لیکن پختون قوم بہت ضعیف الاعتقاد ہے مذہبی ٹھیکداروں نے ان لوگوں کے ذہنوں میں یہ چیزیں بٹھائی ہوئی ہیں جس کے وجہ سے یہ لوگ مزید جہالت کے طرف جا رہے ہیں۔
یہ واقعہ پڑھ کر اپنے پختون قوم کے لیے خصوصی دعا کی اور علما کیلئے بھی تاکہ وہ اپنے مقصد کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ رہے نام اللہ کا۔