تحریر: ۔ محمد بلال یاسر
صوبائی الیکشن کے کمپین ختم ہونے میں ایک دن کا وقت باقی تھا کہ حلقہ پی کے 102باجوڑ سے جمعیت علمائے اسلام کے نامزد امیدوار مفتی سلطان محمد نے مجھے اپنے الیکشن کمپین کے آخری جلسے کے کوریج اور شرکت کی دعوت دی ۔ بدان ماموند میں منعقدہ اس جلسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی پورا علاقہ مفتی سلطان محمد پر دیوانہ وار جان مال نچھاور اور ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار نظر آیا ۔ اس سے قبل میری مفتی سلطان محمد کے ساتھ سرسری تعلقات تھے لیکن اس روز ان کے یہ عوامی محبت دیکھ کر میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ یہ پھول (مفتی سلطان محمد رح)کھلے بغیر چند روز قبل ہم سے جدا ہوگئے ۔
مولانامفتی قاضی سلطان محمد 10شعبان 1402ھ 1982;247;ء کو حاجی نیاز مین محمد کے گھر بدان تحصیل وڑ ماموند باجو ڑ میں پیدا ہوئے ، آپ بڑوزی قوم کے ذیلی شاخ گل ڈھیرئی ملان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاءوں بدان میں واقع جامعہ ضیاء العلوم میں حاصل کی، یہاں آپ کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا عبداللہ (بدان ماموند) رہے ۔ اسی علاقے میں ہی عصری تعلیم بھی مڈل تک حاصل کی ۔ مڈل پاس کرنے کے بعد مدرسہ تحفیظ القرآن گٹکے چلے گئے ، وہاں قاری گل ولی صاحب سے حفظ قرآن مکمل کی اور بعد ازاں درس نظامی میں درجہ ثالثہ تک اسباق پڑھے ۔ اس کے بعد یہاں سے باجوڑ کے معروف دینی درسگاہ جامعہ ریاض العلوم چینہ گئی میں داخلہ لے لیا اور درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک کے اسباق اسی مدرسے میں پڑھے ، یہاں آپ کے مشہور اساتذہ میں سابقہ ایم این اے شیخ الحدیث مولانا محمد صادق صاحب ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق ، مولانا شمس الرحمن ، مولانا لائق اور مولانا محمد نور رہے ۔ یہاں آپ نے تمام فنون کے کتابیں ان اساتذہ کرام سے پڑھی ۔ احادیث نبوی کے حصول تعلیم کیلئے 2008;247;ء میں جامعہ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم شیر گڑھ چلے گئے وہاں دو سال گزاریں ، اس دوران آپ نے یہاں موقوف علیہ اور دورہ حدیث کی تکمیل کی اور آپ کے سر پر دستار فضیلت سجائی گئی ۔ جامعہ اسلامیہ شیرگڑھ میں آپ کے مشہور اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد قاسم صاحب (سابقہ ایم این اے و مہتمم جامعہ اسلامیہ شیرگڑھ) اور شیخ الحدیث مولانا محمد صالح رہے ۔ بعد ازاں 2010;247;ء میں آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں تخصص فی الفقہ والافتاء والقضاء میں داخلہ لیا اور وہاں سے دو سال میں حضرت مولانا مفتی سیف اللہ حقانی سے پرائیویٹ مفتی اور قاضی کورس مکمل کرکے2012 میں انہیں جامعہ دارالعلوم حقانیہ سے مفتی کورس کی تکمیل کی سند عطا کی گئی ۔
2009 میں آپ شادی اپنے خاندان ہی میں ہوئی ، جن سے اللہ آپ کو تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی ۔ درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ کے ابتدائی دور کے استاد محترم مولانا عبداللہ صاحب کے ساتھ اپنے گاؤں ہی میں قائم جامعہ ضیاء العلوم میں مدرس اور بعد ازاں ناظم مدرسہ کے اضافی ذمہ داری کے ساتھ اپنے فراءض سرانجام دینا شروع کیا ، جو تاحیات جاری رہیں ۔ 2015 میں علاقائی مشران نے آپ کے اخلاص ، قابلیت اور عوام میں مقبولیت کو دیکھ کر بدان ماموند کے مسجد صدیق اکبر میں امامت کی ذمہ داری کی پیش کش کی جس آپ نے قبول کیا ۔ مسجد صدیق اکبر میں امامت و خطابت کے ساتھ آپ گذشتہ چار سال سے مسلسل نماز فجر کے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے ، آپ کی شہادت کے دن آپ کا درس قرآن 17ویں پارے کے دوسرے پاوَ کے دوسرے رکوع میں جاری تھا ۔ درس قرآن کے بعد مسجد سے ملحقہ گھر میں بنات کو درس نظامی کے کتب پڑھایا کرتے تھے ۔
مولانا مفتی قاضی سلطان محمد تعلیم حاصل کرنے کیساتھ 12سال سے جمعیت علمائے اسلام کے ذیلی تنظیم جمعیت طلباء اسلام میں گزارلئے اور2010;247;ء میں جمعیت علماء اسلام کے عملی سیاست میں حصہ لیا ، ابتداء آپ کو یونٹ کا امیر بعدازاں آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پہلی بار تحصیل واڑہ ماموند کا امیر منتخب کیا گیا ، اس عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ایک بار پھر آپ کو دوبارہ تحصیل واڑہ ماموند کا امیر منتخب کیا گیا اور تاحیات اس عہدے پر تنظیم کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ سیاست میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان اور دیگر اکابرین دیوبند سے دلیل کے روسے انتہائی متاثر تھے ۔ موجودہ وقت میں جمعیت علمائے اسلام تحصیل وڑ ماموند باجوڑ کے آمیر اور صوبائی مجلس عمومی کے رکن کی حیثیت کام کررہے تھے ۔ 2018کے جنرل الیکشن میں ابتداء قومی اسمبلی کے نشست کیلئے جمعیت علمائے اسلام نے آپ پر اعتماد کیا لیکن بعد ازاں حلقوں میں ردوبدل کے بعد آپ نے جے یو آئی باجوڑ کے امیر مولانا عبدالرشید کیلئے یہ سیٹ چھوڑ دی ۔ جمعیت علمائے اسلام نے ان کی قابلیت کی بنیاد پر انہیں حلقہ پی کے102سے امیدوار نامزد کیا ۔ جس میں انہوں نے شاندار انداز میں بڑے بڑے سیاسی جماعتوں اور صاحب مال و دولت امیدواروں کا زبردست مقابلہ کرتے ہوئے الیکشن میں چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے 9225ووٹ حاصل کیے ۔ جو کہ باجوڑ کے عوام کا ان سے بے پناہ محبت اور ان پر بے پناہ اعتماد کا واضح ثبوت تھا ۔
28اکتوبر پیر کے دن علی الصبح ضلع باجوڑ کے تحصیل وڑ ماموند کے علاقہ بدان میں مفتی سلطان محمد پر اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کی ، جب وہ نماز فجر کی ادائیگی کیلئے مسجد جارہے تھے ۔ فائرنگ کے نتیجے میں مفتی سلطان محمد شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طورپر مقامی لوگوں نے علاج معالجے کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار منتقل کردیا ۔ دوپہر کے بعد انہیں مزید علاج کیلئے بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور منتقل کردیا گیا جہاں پر اُن کا علاج جاری تھا ،مگر بدقسمتی سے وہ زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے پیر اور منگل کی درمیانی شب 11بجے جان کی باز ہار گئے اور اپنی روح رب کے سپرد کردی ، بعد ازاں ان کی میت رات کے وقت ان کے گاؤں بدان قافلے کے شکل میں باجوڑ لائی گئی ۔ ان کی نماز جنازہ بروز منگل 29اکتوبر ان کے آبائی گاؤں بدان ماموند میں ادا کی گئی ، جس میں باجوڑ اور باجوڑ سے باہر ملک کے طول وعرض سے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ جنازے کے موقع پر آہوں و سسکیوں کا سماں بندھا رہا ۔ بعد ازاں انہیں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ مفتی سلطان محمد نہ صرف ایک نوجوان سیاستدان تھے بلکہ وہ علاقے کے ایک جید عالم دین بھی تھے ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی پرواہ نہیں ۔