نمونہ اسلام ، پیکر اخلاص حضرت مولانا مفتی سلطان محمد شہید رحمہ اللہ

 

 

 

WhatsApp Image 2019-11-10 at 2.03.10 AM

تحریر: ۔ محمد بلال یاسر

صوبائی الیکشن کے کمپین ختم ہونے میں ایک دن کا وقت باقی تھا کہ حلقہ پی کے 102باجوڑ سے جمعیت علمائے اسلام کے نامزد امیدوار مفتی سلطان محمد نے مجھے اپنے الیکشن کمپین کے آخری جلسے کے کوریج اور شرکت کی دعوت دی ۔ بدان ماموند میں منعقدہ اس جلسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی پورا علاقہ مفتی سلطان محمد پر دیوانہ وار جان مال نچھاور اور ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار نظر آیا ۔ اس سے قبل میری مفتی سلطان محمد کے ساتھ سرسری تعلقات تھے لیکن اس روز ان کے یہ عوامی محبت دیکھ کر میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ یہ پھول (مفتی سلطان محمد رح)کھلے بغیر چند روز قبل ہم سے جدا ہوگئے ۔

مولانامفتی قاضی سلطان محمد 10شعبان 1402ھ 1982;247;ء کو حاجی نیاز مین محمد کے گھر بدان تحصیل وڑ ماموند باجو ڑ میں پیدا ہوئے ، آپ بڑوزی قوم کے ذیلی شاخ گل ڈھیرئی ملان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاءوں بدان میں واقع جامعہ ضیاء العلوم میں حاصل کی، یہاں آپ کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا عبداللہ (بدان ماموند) رہے ۔ اسی علاقے میں ہی عصری تعلیم بھی مڈل تک حاصل کی ۔ مڈل پاس کرنے کے بعد مدرسہ تحفیظ القرآن گٹکے چلے گئے ، وہاں قاری گل ولی صاحب سے حفظ قرآن مکمل کی اور بعد ازاں درس نظامی میں درجہ ثالثہ تک اسباق پڑھے ۔ اس کے بعد یہاں سے باجوڑ کے معروف دینی درسگاہ جامعہ ریاض العلوم چینہ گئی میں داخلہ لے لیا اور درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک کے اسباق اسی مدرسے میں پڑھے ، یہاں آپ کے مشہور اساتذہ میں سابقہ ایم این اے شیخ الحدیث مولانا محمد صادق صاحب ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق ، مولانا شمس الرحمن ، مولانا لائق اور مولانا محمد نور رہے ۔ یہاں آپ نے تمام فنون کے کتابیں ان اساتذہ کرام سے پڑھی ۔ احادیث نبوی کے حصول تعلیم کیلئے 2008;247;ء میں جامعہ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم شیر گڑھ چلے گئے وہاں دو سال گزاریں ، اس دوران آپ نے یہاں موقوف علیہ اور دورہ حدیث کی تکمیل کی اور آپ کے سر پر دستار فضیلت سجائی گئی ۔ جامعہ اسلامیہ شیرگڑھ میں آپ کے مشہور اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد قاسم صاحب (سابقہ ایم این اے و مہتمم جامعہ اسلامیہ شیرگڑھ) اور شیخ الحدیث مولانا محمد صالح رہے ۔ بعد ازاں 2010;247;ء میں آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں تخصص فی الفقہ والافتاء والقضاء میں داخلہ لیا اور وہاں سے دو سال میں حضرت مولانا مفتی سیف اللہ حقانی سے پرائیویٹ مفتی اور قاضی کورس مکمل کرکے2012 میں انہیں جامعہ دارالعلوم حقانیہ سے مفتی کورس کی تکمیل کی سند عطا کی گئی ۔

2009 میں آپ شادی اپنے خاندان ہی میں ہوئی ، جن سے اللہ آپ کو تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی ۔ درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ کے ابتدائی دور کے استاد محترم مولانا عبداللہ صاحب کے ساتھ اپنے گاؤں ہی میں قائم جامعہ ضیاء العلوم میں مدرس اور بعد ازاں ناظم مدرسہ کے اضافی ذمہ داری کے ساتھ اپنے فراءض سرانجام دینا شروع کیا ، جو تاحیات جاری رہیں ۔ 2015 میں علاقائی مشران نے آپ کے اخلاص ، قابلیت اور عوام میں مقبولیت کو دیکھ کر بدان ماموند کے مسجد صدیق اکبر میں امامت کی ذمہ داری کی پیش کش کی جس آپ نے قبول کیا ۔ مسجد صدیق اکبر میں امامت و خطابت کے ساتھ آپ گذشتہ چار سال سے مسلسل نماز فجر کے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے ، آپ کی شہادت کے دن آپ کا درس قرآن 17ویں پارے کے دوسرے پاوَ کے دوسرے رکوع میں جاری تھا ۔ درس قرآن کے بعد مسجد سے ملحقہ گھر میں بنات کو درس نظامی کے کتب پڑھایا کرتے تھے ۔

مولانا مفتی قاضی سلطان محمد تعلیم حاصل کرنے کیساتھ 12سال سے جمعیت علمائے اسلام کے ذیلی تنظیم جمعیت طلباء اسلام میں گزارلئے اور2010;247;ء میں جمعیت علماء اسلام کے عملی سیاست میں حصہ لیا ، ابتداء آپ کو یونٹ کا امیر بعدازاں آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پہلی بار تحصیل واڑہ ماموند کا امیر منتخب کیا گیا ، اس عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ایک بار پھر آپ کو دوبارہ تحصیل واڑہ ماموند کا امیر منتخب کیا گیا اور تاحیات اس عہدے پر تنظیم کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ سیاست میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان اور دیگر اکابرین دیوبند سے دلیل کے روسے انتہائی متاثر تھے ۔ موجودہ وقت میں جمعیت علمائے اسلام تحصیل وڑ ماموند باجوڑ کے آمیر اور صوبائی مجلس عمومی کے رکن کی حیثیت کام کررہے تھے ۔ 2018کے جنرل الیکشن میں ابتداء قومی اسمبلی کے نشست کیلئے جمعیت علمائے اسلام نے آپ پر اعتماد کیا لیکن بعد ازاں حلقوں میں ردوبدل کے بعد آپ نے جے یو آئی باجوڑ کے امیر مولانا عبدالرشید کیلئے یہ سیٹ چھوڑ دی ۔ جمعیت علمائے اسلام نے ان کی قابلیت کی بنیاد پر انہیں حلقہ پی کے102سے امیدوار نامزد کیا ۔ جس میں انہوں نے شاندار انداز میں بڑے بڑے سیاسی جماعتوں اور صاحب مال و دولت امیدواروں کا زبردست مقابلہ کرتے ہوئے الیکشن میں چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے 9225ووٹ حاصل کیے ۔ جو کہ باجوڑ کے عوام کا ان سے بے پناہ محبت اور ان پر بے پناہ اعتماد کا واضح ثبوت تھا ۔

28اکتوبر پیر کے دن علی الصبح ضلع باجوڑ کے تحصیل وڑ ماموند کے علاقہ بدان میں مفتی سلطان محمد پر اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کی ، جب وہ نماز فجر کی ادائیگی کیلئے مسجد جارہے تھے ۔ فائرنگ کے نتیجے میں مفتی سلطان محمد شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طورپر مقامی لوگوں نے علاج معالجے کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار منتقل کردیا ۔ دوپہر کے بعد انہیں مزید علاج کیلئے بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور منتقل کردیا گیا جہاں پر اُن کا علاج جاری تھا ،مگر بدقسمتی سے وہ زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے پیر اور منگل کی درمیانی شب 11بجے جان کی باز ہار گئے اور اپنی روح رب کے سپرد کردی ، بعد ازاں ان کی میت رات کے وقت ان کے گاؤں بدان قافلے کے شکل میں باجوڑ لائی گئی ۔ ان کی نماز جنازہ بروز منگل 29اکتوبر ان کے آبائی گاؤں بدان ماموند میں ادا کی گئی ، جس میں باجوڑ اور باجوڑ سے باہر ملک کے طول وعرض سے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ جنازے کے موقع پر آہوں و سسکیوں کا سماں بندھا رہا ۔ بعد ازاں انہیں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ مفتی سلطان محمد نہ صرف ایک نوجوان سیاستدان تھے بلکہ وہ علاقے کے ایک جید عالم دین بھی تھے ۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی پرواہ نہیں ۔

ظالموں کے خلاف میری بغاوت کی ابتداء

30 oct

 

 محمد بلال یاسر
 
یہ آج سے پورے دس سال پہلے کی بات ہے جب میں حد بلوغ کو نہیں پہنچا تھا عام بچوں کی طرح لاابالی پن میرے مزاج کا حصہ تھا۔
ملک اور ملک سے باہر دنیا میں جو ہو رہا ہے سو ہوتے رہنے دو . . ہمیں تو ہر وقت فکر اپنی پالی ہوئ کبوتروں کی ہوا کرتی تھی اور اگر کوئ بہت زیادہ ناخوشگوار واقعہ کے بارے میں سن لیتے تو وقتی افسوس کے بعد اپنے کھیل کود میں پھر سے مگن ہوکر اسے بھول جاتے۔ تھک ہار کر شام کو جلدی سو جانا ہماری عادت بن چکی تھی۔
29 اکتوبر 2006 کی شام بھی ہم عادت کے مطابق جلدی سو گئے صبح صادق کے طلوع ہوتے وقت فضاء میں گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی۔ اگلے لمحے ایک خوفناک اور زور دار دھماکے کی آواز سنائ دی۔ تقریبا 5،6 کلومیٹر دور ہماری گاؤں میں بھی اس کی شدت سے کھڑکیاں ٹوٹ کر گر پڑی اور بند دروازے کھل گۓ ۔ ہمارے کمرے کا دروازہ بھی کھل چکا تھا ۔ خوف کے مارے باہر نکل پڑا۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ماجرا ہے . . نماز فجر کیلۓ اپنے دادا جان کے ساتھ مسجد پہنچا تب اطلاع ملی کہ کاپر انگریز (امریکہ) نے مولانا لیاقت کے مدرسے پر حملہ کیا ہے۔ سورج نکلنے سے قبل تمام قبائل کے ہر بچے کی طرح میں بھی اپنے دوستوں کے ہمارے جائے وقوعہ پر پہنچا۔ میں نے انسانوں کے اعضا درختوں اور دور گھروں کے چھتوں پر پڑے دیکھے، 83 معصوم حفاظ کرام کے چیتڑے اپنے ہاتھوں سے اکھٹے کرتے دیکھے ،
اس دن سے میری ذہنیت بدل گئ ، میں ایک باغی قبائلی بن گیا ، اب میں ہر وقت اپنے قبائل کی وکالت اور دشمن کے ہلاکت کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ !!
آخر کیا قصور تھا ۔۔۔ !!
بالفرض اگر مجرم تھے تو یہ سزا دنیا کے کس قانون کے تحت ۔۔۔ !!
یہ واقعہ ظلم و وحشت قرار دیۓ جانے کے بعد بھی آج قاتل اور ظالم زندہ ، انصاف کے تقاضے کب پورے ہونگے ؟؟؟
میری تسلی قرآن کی یہ آیت “ان بطش ربک لشدید” پڑھنے کے بعد ہوجاتی ہے

عبدالرشيد خان رشيد څوک وو ؟

د باجوړ نوموړي ژورناليسټ عرفان الله جان راته د باجوړ ارواښاد عبدالرشيد خان رشيد په حق له اويل چه په کال ۲۰۰۲ کې يو وارې زه د يو پروګرام نه را روان وم چه او مې ليدل چه رشيد لالا ناست دې سلام مې پرې واچه وو او ورته او مي ويل چه لالا نن خو د تصوير ښه موقع ده. مازيګرې دي , کيمره هم راسته ده او ډمبر ګلې هم ګل شوي. ويل رشيد لالا اويل چه داسې ولي نه وې چه
په محبت او سليقه راغلم
رشيد لالا له په موقع راغلم
په هغه موقع مي دا عکس واخيست چه اوس هم راسه محفوظ وو. د عرفان الله جان د وينا مطابق رشيد لالا په خانئ کې ملنګ وو.

رشيد لالا په حق لالا د باجوړ ادبې ټولني مشر او نوموړي شاعر اشنا باجوړي ليکي

ED8CUh0WkAEf9F6 - CopyRasheed lala

اروښاد عبدالرشید خان رشید د باجوړ د تنظیمی ادب بانی دے ۔ غازیان او سنګرونہ ئې د افغانستان نہ خپور شوے او لاس او ګرېوان ئې د پېښور نہ پہ ۱۹۸۴ خوا و شا کښې چاپ شوے دے د دوئي کلیات د ۲۰۱۴ خوا و شا د دوئي د بچوړي افتخار پہ مرستۂ د سیمې تکړہ شاعر او نثر نګار جعفر خان جعفر چاپ کړو چې پہ کښې د ھغوئي ټولہ دستیاب شاعري راغونډہ کړې شوې دہ دوئې د قلم د لارې پہ خپل دور کښې د جاګیردارۍ او علماءِ سوء خلاف جګړہ کړې دہ او د خپل ژوند رنګینې او سنګینې حادثې ئې ھم قلم تہ سپارلی دي د دوئي زیاترہ شاعرۍ تہ استاد شاہ ولي ، نغمہ منګل او یو شمېر نورو معاصرو سندرغاړو د خپل آواز خواږ بخښلی وو. بدمرغي مو د کتاب نہ لرې والے دے ګنې نو عبدالرشید خان رشید زمونږ ویاړ دے

د باجوړ د سيمي نوموړې ليکوال پروفيسر حبيب الحسن ياد د رشيد خان په حق له ليکي چه رشيد لاله د ظلم او استبداد پر ضد د حق اواز او د مزاحمت غږ وو ـ هغه د ظالم په مقابل کښ ودريد او دځان سره ي د مظلومانو يو لښکر تيار کړو ـ او بى وزله خلک ي د حق لارى ته د وهڅولو۔

عوام کا درد

 
محمد بلال یاسر34721595_1848811588756863_807261424228237312_n
گذشتہ رات میرے ایک قریبی دوست کے چھوٹے بھائی کا خار (پرائیوٹ) ہسپتال میں آپریشن تھا ، جس میں خدشہ تھا کہ خون کی ضرورت پڑ جائے لہذا ہم تمام 7،8 دوست رات تقریباً گیارہ بجے تک ہسپتال میں موجود رہے ، 11 بجے کے قریب گھر واپسی پر عمرے چوک میں ایک موٹر سائیکل تیزی سے مجھ سے آگے بڑھی میں نے بھی سپیڈ بڑھائی ، قریب ہوا تو دیکھا کہ نوجوان سیاسی و سماجی شخصیت ملک خالد خان ہیں ، رات کے اس پہر موٹر سائیکل پر گھومنے پھرنے کی وجہ وجہ دریافت کی تو بتایا کہ ماموند کے چند افراد کے درمیان مالی تنازعہ پر لڑائی ہوئی تھی جنہیں عمرے تھانہ لایا گیا تھا ان کے بوڑھے والدین تھانہ میں بچوں کے رات گذارنے سے پریشان تھے میرے پاس آئے اور مسئلے کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کو کہا میں رات کو ان کے ساتھ نکل آیا ، دونوں فریقین کے درمیان جرگہ کیا ، صلح کروایا اور ان کی رہائی میں مدد کی ، یہ لوگ اب تھانے کے بجائے گھر جائیں گے۔۔۔ !! خالد خان نے بات کو طول دینا چاہا پر ہم عمرے چوک پہنچ چکے تھے جہاں سے ہمارے راستے جدا ہونے تھے لہذا میں سلام کیا اور گھر کے واڑہ ماموند روڈ کے جانب سے موٹر سائیکل موڑتے وقت ایسے اصلاح معاشرہ کے کام پر خالد خان کو ڈھیر سارے دعائیں دی اور گھر کے جانب چل دیا۔

باجوڑ کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

WhatsApp Image 2019-03-09 at 11.31.26 AM(2)
تحریر: محمد بلال یاسر
گذشتہ روز مجھے ماموند برخلوزو کالج کے آئی ایس ایف ونگ کے صدر طارق جمیل کی کال موصول ہوئی ان کا کہنا تھا کہ کالج میں سینکڑوں طلبہ داخلوں سے محروم ہیں جس کے خلاف ہم نے برخلوزو تا عمرے چوک ریلی نکالی ہے آپ مہربانی فرماکر ہماری کوریج کیلئے تشریف لائیں۔ میں نے موقع کے نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا مختصر سامان پیک کیا اور کوریج کیلئے جا پہنچا ۔ انتہائی سخت گرمی میں طلبہ نے لعل زمان پختونیار اور طارق جمیل کی قیادت میں عمرے چوک میں دو گھنٹے تک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کالج انتظامیہ نے کوٹہ صرف 50 لڑکوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے جبکہ اس سال میٹرک سے تحصیل ماموند کے سینکڑوں طلبہ فارغ ہوئے ہیں جنہیں اب داخلہ نہیں مل رہا ایک تو میرٹ بہت زیادہ جبکہ کوٹہ بھی بہت کم رکھا گیا۔ احباب تعلیم کیلئے بنیادی سہولیات فراہم کر نا ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ اس لئے سرکاری سطح پر سکولوں اور کالجز کا جال بچھایا جاتا ہے تاکہ قوم کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکر مستقبل میں ریاست کی ترقی وخوشحالی میں فعال کردار ادا کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ملکِ خداد میں ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں تعلیم کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔اورستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مختلف حکومتیں تعلیم کے حوالے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا۔ صاحبِ حیثیت لوگوں کے بچے تو بیرونِ ملک جا کر بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے صرف بڑے بڑے سکولوں کے شاندار ماحول کا نظارہ تو کرسکتے ہیں لیکن وہاں پڑھ کر اپنا مستقبل روشن نہیں بناسکتے ۔غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے اگر میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکے تو وہاں طبقاتی نظامِ تعلیم کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اور سرکاری کالجوں کی میرٹ لسٹوں کے آگے غربت کا مارا حصولِ تعلیم کا جذبہ دم توڑدیتا ہے ۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہ نسبت نجی تعلیمی ادارے ہی معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں ۔جس کی اہم وجہ ہمارے منتخب حکومتوں کے نا تجربہ کار اورناہل لوگوں کا محکمۂ تعلیم کا سرپرست بن جانا ہے ۔ جن کے پاس نہ کوئی پلاننگ ہوتی ہے اور نہ پالیسی ۔ پاکستان حکومت جسے آپ دوسرے الفاظ میں تبدیلی سرکار بھی کہہ سکتے ہیں نے جب حکومت سنبھالی تو تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کردیا اور ہنگامی بنیادوں پر محکمۂ تعلیم میں اصلاحی کام شروع کیا۔اس منصوبے پر خیبر پختونخواکے بجٹ کا بڑا حصہ لگایا گیا۔ پانچ سالہ دور میں ہر وقت میڈیا پر تعلیمی اصلاحات اور ترجیحات کے دعوے کئے گئے لیکن گذشتہ حکومت کے جاتے ہی تعلیمی ایمرجنسی ڈھیر ہوگئی۔ امسال سالانہ میٹرک امتحانات میں سرکاری سکولوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔ صوبائی حکومت کی تعلیمی اصلاحات اور ترجیحات مؤثر ثابت نہ ہوسکیں۔امسال جماعت نہم اور دہم کے سالانہ نتائج میں سب اچھی پوزیشنیں مہنگی تعلیم بانٹنے والوں نے لیں ۔
میٹرک کے بعد کسی طالب علم کا اصل معنوں میں تعلیمی دور شروع ہوتا ہے۔ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور معیاری کالج کا انتحاب کرے اور اسے وہاں داخلہ مل جائے ۔ باجوڑ میں اس وقت کل تین کالجز ہیں جن میں سر فہرست گورنمنٹ ڈگری کالج خار ہے جبکہ گورنمنٹ ڈگری کالج برخلوزو ماموند اور گورنمنٹ کالج زوربندر بھی تعلیم کے مد میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ لیکن برخلوزو کالج میں 10 سال تک سیکورٹی فورسز کی رہائش پذیر رہنے کے باعث کالج کا زیادہ تر حصہ استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اس لیے اس حصے کے دوبارہ تعمیر تک کالج انتظامیہ نے داخلوں کا کوٹہ کم کردیا ہے۔ ۔اس فیصلے سے تحصیل ماموند اور دیگر علاقوں کے سیکڑوں طلبہ داخلوں سے محروم ہوجائیں گے ۔جس سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا ۔اس فیصلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر کالجز بھی اب داخلہ میرٹ بڑھائے گا ۔ اس فیصلہ سے زیادہ تر سرکاری سکولوں کے غریب طلبہ نہ صرف متاثر ہوں گے بلکہ ان کا تعلیمی کیریئر ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا ۔اس فیصلہ سے طلبہ کے والدین انتہائی فکرمند ہیں کیونکہ طلبہ کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ والدین اپنے خون پسینے کی کمائی سے اٹھاتے ہیں ۔ بچوں کی والدین اور متاثرہ طلبہ نے محکمۂ تعلیم سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کو انتہائی سنجید گی سے لے اور ہنگامی بنیادوں پر میٹرک سے فارغ سیکڑوں طلبہ کے لئے ان کالجوں میں مزید اساتذہ اور کسی متبال بلڈنگ کا انتظام کرے تاکہ طلبہ کا مستقبل تباہ ہو نے سے بچ سکے۔ ورنہ اس نقصان کا ازالہ شاید پھر ممکن نہیں ہوگا۔ اور یوں ہمارا یہ قومی اثاثہ ضائع ہوجائے گا۔

باجوڑ ، رشکئی کے سہیل شنواری کے خودکشی کے وجوہات کیا تھے ؟؟

45471148_1138789789622587_4418586754110455808_n
محمد بلال یاسر
زندگی کواپنے ارادے سے اور اپنے ہاتھوں ختم کرناکتناخوفناک ہے ! تشدد کی انتہائی سنگین شکل ، بھیانک احساس اور تکلیف دہ عمل۔۔۔خودکشی ہے،کیا کیفیت ہے وہ، جسے انسان خود اپنے اوپر طاری کر کے اپنے ہی ہاتھ سے اپنی جان لے لیتا ہے۔ کسی نے زہر کا پیالہ پیا تو کوئی پھندے سے لٹک گیا،کسی نے خود کو گولی ماری تو کوئی اپنی ہی لگائی آگ میں جل گیا۔ انہیں بدقسمت لوگوں میں سے ایک ضلع باجوڑ تحصیل خار کے علاقے رشکئ سے تعلق رکھنے والے سہیل شنواری بھی تھے۔ جو آباسین یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس کے فیس بک اکاؤنٹ کو کھنگالا کر جب میں نے دیکھا تو یہی اخد کیا کہ وہ سیاست میں پیپلز پارٹی سے گہرے وابستگی رکھتا تھا اور عام زندگی میں وہ تعلیم کے ساتھ میوزک زیادہ پسند کرتے تھا ، اس کے کئی تصاویر رباب کے ساتھ اس کے وال پر موجود ہیں ، اس نے اپنے فیس بک سے اپنا آخری پوسٹ ایک شعر کے شکل میں 13 مئی کو کیا۔ اس کے قریبی دوستوں نے لکھا ہے کہ سہیل کی گھر میں کسی بات پر تکرار ہوئی ، یہاں سے وہ پشاور گیا لیکن اس کا ذہن انہیں معاملات میں الجھا ہوا تھا یہ تکرار بلا آخڑ اس کیلئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ گذشتہ شب اس نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ خوبرو سہیل کے اس اندوہناک موت پر باجوڑ سے تعلق رکھنے والے اس کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر خوب لکھا اور گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں طلبا کی خودکشی کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔امریکا میں 1950کے بعد سے طلبا میں خودکشی کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو ا، جہاں خودکشی کالج کے طلبا میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ 2007 سے2015کے دوران پندرہ سے انیس سال کی امریکی طالبات میں خودکشی کی شرح چالیس سال بعد سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اسی عرصے میں طلبا کی خودکشی کی شرح تیس فی صدزیادہ تھی۔ اپنے بچوں کے ضروریات کو سمجھیئے انہیں کے خواہشات کا لحاظ کیجئے اور ان کے مسائل میں دوست کی طرح کردار ادا کیجئے تاکہ کل کو آپ کے بیٹے کے شکل میں ایک اور سہیل اپنی زندگی کا خاتمہ اس طریقے سے نہ کردیں کہ پھر آپ کو پوری زندگی پچھتانا پڑے۔

میرا والد میرے لیے رحمت کا فرشتہ

محمد بلال یاسرWhatsApp Image 2019-06-16 at 11.43.19 AM
میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں ، میرے والد نے میرے انتہائی سختی میں تربیت کی۔ مجھ سے پیار کے انداز میں بات کرنے کے بجائے اکثر غصے میں بات کی۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنے قریب رکھا ، جہاں میں نے جانے کی خواہش ظاہر کی ، میرے ساتھ خود گئے ، مجھے اکثر والد صاحب کہا کرتے تھے کہ تمہیں کیا پتہ جب تم گھر سے نکل جاتے ہو جب تک واپس نہیں آتے ہمیں کتنی فکر ہوتی ہے اور ہم پریشان ہوتے ہیں یہ تب تمہیں اندازہ ہوجائے گا جب تم اپنے بچوں کے باپ بن جاؤ۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے جب سے میں نے اپنے بچیوں سہلا یاسر اور مرویٰ یاسر کو سکول میں داخل کروایا ہے۔ اکثر میں خود انہیں سکول لے جاتا ہوں لیکن پھر میں ڈیوٹی کیلئے آفس چلا جاتا ہوں ، ان کی گھر واپسی تک مجھے شدید فکر اور غم لاحق ہوتا ہے اب میں سوچتا ہوں کہ والد صاحب مجھے سے انتقاما سختی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مجھ سے محبت بہت زیادہ تھی اس وجہ سے مجھے اکثر اوقات ڈانٹتے۔ ’’والد‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ چار لفظوں سے مرکب ہے۔’’و‘‘ سے ولایت ووَفا والا۔ ’’الف ‘‘ سے اعلیٰ مقام والااور ایثارواُلفت والا۔’’ل‘‘ سے لطف وکرم والا۔ اور ’’د‘‘ سے دانائی اور دست گیری کرنے والااور جب ہم ایسی صفات وخصائل کی حامل شخصیت سامنے آتی ہے تو اسے والد (باپ)کا نام دیاجاتاہے۔ اسی طرح ’’باپ‘‘ اردو زبان کا لفظ ہے اور یہ تین لفظوں کا مجموعہ ہے یعنی ’’ب‘‘سے برکت وبزرگی والا …’’الف‘‘ سے اساس واصل اورآبیاری والا… اور’’پ‘‘سےپیارومحبت والفت کے مجموعے کا نا م ’’باپ‘‘ہے۔
اللہ میرے والد سمیت ہر کسی پر والد کا سایہ تادیر قائم و دائم رکھیں۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں

باجوڑ ڈیڑھ دہائی سے بند پبلک لائبریری کسی مسیحا کی منتظر

IMG_3840
تحریر:۔ محمد بلال یاسر
کتب خانوں کا آغاز بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ دور میں قدم رکھتے ہی ہو گیا تھا۔ انسان کے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں، جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعد ازاں چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی۔ علم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہٰذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیمی نظام کیسا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام کو جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ اور کتنے لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ضلع باجوڑ میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہے، جس کی بنیادی وجہ یہاں تعلیم کی شدید قلت ہے ، کتب کے طرف ترغیب دلانے کیلئے 24 اگست 1999 کو ہیڈ کواٹر خار میں پولیٹیکل ایجنٹ ملک قیصر مجید کے ہاتھوں باجوڑ کے اولین پبلک لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور باجوڑ کے تعلیم یافتہ اور کتب بینی سے محبت کرنے والوں کیلئے ایک نادر موقع میسر آیا ۔لیکن اس ملک میں آپریشن کے نام پر ایک وبا امڈ آئی جس سے یہ ترقی پذیر جنت نظیر وطن باجوڑ کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا، دور جدید میں اگرچہ مطالعہ کے نئے میڈیم متعارف ہو چکے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکت سے علم کا حصول اور اطلاعات رسانی کے باب میں انقلاب برپا ہو چکا ہے مگر کتاب کی اپنی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 2007’8 کے عسکری آپریشن کا آغاز ہوتے ہی باجوڑ پبلک لائبریری بندکردی گئی ، جس کے وجہ سے کتب بینی کا شغف رکھنے والوں کے ہاتھ سے ایک اہم موقع جاتا رہا ، اب امن کے بحالی کے بعد ضلع باجوڑ وفاق کے بجائے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہوچکا ہے اور ترقی کے دوڑ میں دیگر بندوبستی علاقوں کے ساتھ شامل ہوچکا ہے۔ اس لیے علاقے کے باشعور اور کتب بینی سے محبت کرنے والے افراد گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے بند ضلع باجوڑ کے واحد اور اولین پبلک لائبریری کے بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس کا اب کھولا جانا ضروری ہے اس سلسلے میں رواں ہفتے باجوڑ کے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تنظیم دی تھینکر ایسوسی ایشن کے جانب سے شروع کیے جانے والے مہم میں باجوڑ کے تمام ہی صاحب فہم و فراست نوجوانوں نے حصہ لیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اب یہ پبلک لائبریری بحال کیا جانا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں پڑی قیمتی کتابیں اب ضائع ہونے کے قریب اور ان پر پڑی گرد و غبار کے باعث کتابوں کا برا حال ہوچکا ہے اور اس سے ہمارے نوجوان کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ دی تھینکر ایسوسی ایشن سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کو باقاعدہ خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ باجوڑ میں پبلک لائبریری فعال کی جائے۔دی تھینکر ایسوسی ایشن کے مرکزی ممبر شاہد علی خان نے بتایا کہ جب ہم نے طویل عرصے بعد اس لائبریری کا معائنہ کیا تو کافی عرصہ گذر جانے کے بعد لائبریری میں موجود اکثر کتب استعمال کے قابل نہیں رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ کئی علم دوست احباب کے جانب سے پیش کش کی گئی ہے کہ اگر لائبریری کو از سرنو دوبارہ بحال کردی جائے تو ہم اپنی ذاتی رقم سے اس پبلک لائبریری کیلئے کتابیں ہدیہ کریں گے۔ علم دوست احباب کا کہنا ہے کہ پہلے سے لائبریری کی بلڈنگ موجود ہے مگر رنگ روغن کی ضرورت ہے۔ضلع باجوڑ میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کیلئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے ما فی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے کتب بینی کی عادت ہمیں ڈالنی ہو گی تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔ عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ سکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ آشور بنی پال کے کتب خانے میں دولاکھ تیس ہزار مٹی کی تختیاں تھیں اور اس کتب خانے کو پہلا عوامی کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ پرگامم کا مواد پیپرس رولز پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ سکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب مسلمانوں نے بلاتخصیص ہر شخص کے لئے علم کے دروازے کھول رکھے تھے۔جگہ جگہ درسگاہیں اور تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ ان کے ساتھ سرکاری کتب خانے بھی تھے۔سلاطین وقت خود بھی ان کتب خانوں سے مستفیض ہوتے تھے اور اپنے عوام کو بھی ان سے استفادے کی دعوت دیتے تھے۔کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔اس طویل بحث کا حاصل یہی ہے کہ حکومت تعلیمی ایمرجنسی کے جھوٹے دعوؤں کے بجائے عملی کام کریں اور فوری طور پر ضلع باجوڑ میں قائم واحد پبلک لائبریری فوری طور پر بحال کریں۔

فرمان کسکر اور پشتو ادب کا جنازہ تحریر:۔ محمد بلال یاسر

img_5932

ہوا کچھ یوں کہ ضلع صوابی کے علاقے ترکء کا رہائشی فرمان جو کہ ایک غریب کسان کا بیٹا ہے اس کی عمر بمشکل 15 سال ہوگی، فرمان ابتدا ہی سے کھیتی باڑی میں ہی والد کا ہاتھ بٹاتا آرہا ہے یہاں تک کہ اس کے پاس ذاتی موبائل تک نہیں لیکن اسے پشتو شعر و ادب کا شوق ضرور ہے۔ گذشتہ دنوں اس نے اپنے ایک دوست سے انڈرائیڈ موبائل لیکر اس میں اپنا شوق پورا کرنے کیلئے اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری ریکارڈ کروائی، جو بغیر کسی تیاری اور بغیر کسی استاد کے املاء و تصحیح کی تھی۔ فرمان کسکر جو سوشل میڈیا کی دنیا اور سوشل میڈیا کی چمکتی فتنے سے بے خبر تھا اس نے اپنے دوستوں کو کوئی تاکید نہیں کی اور نہ ہی وہ ریکارڈنگ ڈیلیٹ کرنے کا کہا۔ اس کے دوستوں نے از راہ مزاق وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ بس اس موقع کو غنیمت جان کر کچھ لوگوں جو لائک اور کمنٹس کے بھوکے ہوتے ہیں اور دوسرے درجے کے وہ لوگ جو ریٹنگ کے چکر میں ہوتے ہیں جبکہ تیسرے درجے کے وہ لوگ تھے جو پشتو ادب کے خلاف اپنا بغض نکالنا چاہتے تھے تمام کے تمام نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس کے تشہیر میں بھرپور حصہ لیا۔ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ سوشل میڈیا کی دنیا نے فرمان کسکر کے مزید شاعری کی فرمائشیں شروع کردی اور فضول کے مہم جو مزید کلپس لیکر سوشل میڈیا کے اس بھیڑ کا حصہ بن گئے۔ فرمان شعر و ادب کے الف ب سے نابلد لیکن اس کے کلام کو کچھ لوگوں نے طنزیہ اور کچھ نے پشتو ادب کے خلاف اپنے بغض کے اظہار کیلئے خوب تبصرے کیے۔ بڑے بڑے پختون سوشلسٹ اور ادیب بھی اس مہم کا حصہ بن گئے۔ حالانکہ ضروری یہ تھا کہ پشتو ادب کے محافظ اور چاہنے والے اس موقع پر اس سلسلے کے دل شکنی کرکے روک تھام کیلئے کوششیں کرتے تھے انہوں نے اس معاملے کو مزید ہوا دی۔ میں نے جتنا فرمان کسکر کے ویڈیوز سنی، دیکھی اور تبصرہ نگاروں کی تبصرے دیکھا یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ خدا را پشتو ادب کو تباہی اور بدنامی سے بچانے کیلئے صاحب فکر ادیب آگے بڑھیں اور ایسے مہمات کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ پشتو ادب ایک مسخرہ بننے کے بجائے ہمارا قومی اور قابل فخر ورثہ کے طور پر برقرار رہے۔ فرمان کسکر کے سادگی اور اس کے کم عمری اور کم علمی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے ایسے لوگوں کی اصلاح کیجئے اور جب ان کی اصلاح ہوجائیں اور ان کی درست رہنمائی مکمل ہوکر ان کے کلام اور خدمات درست انداز میں دنیا کے سامنے آئیں گی تو پشتو ادب کو بہت کچھ بخش دے گی بجائے اس کے کہ ہم ایسے لوگوں کو مذاق اڑا کر دل تھوڑ دیں اور ان کے بہتر مستقبل اور فن کے تباہی کا باعث بنیں۔ اللہ ہمیں بہتر انداز میں سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

کرتارپور کے بعد غاخی پاس اور نواپاس بارڈر بھی کھولنا ضروری تحریر:۔ محمد بلال یاسر

Bilal yasir picگذشتہ دنوں پاکستان نے ہندوستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے سکھ یاتریوں کیلئے کرتارپور بارڈر کھولا اور سکھ یاتریوں کیلئے پاکستان آمدو رفت کی بلا ویزہ اجازت دینے کا اعلان کیا۔ جس کا دنیا بھر میں خیرمقدم کیا گیا ، کیونکہ سکھ یاتریوں کی گروناک کا مزار نہایت قابل احترام ہے اور اسی احترام کے پیش نظر ان کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے۔جبکہ دوسری اہم وجہ ایک لکیر کے دونوں اطراف بسنے والے ایک ہی قومیت اور رشتوں کے حامل ہزاروں نہیں لاکھوں افراد ہیں جن کے آمد ورفت اور غمی خوشی میں شرکت کیلئے راہداریوں کی آسانی کو دنیا بھر نے سراہا۔ ہندوستان کے برعکس افغانستان کے ساتھ ہمارا بارڈر صدیوں پرانا اور کئی ہزارکلومیٹر پر مشتمل ہے لیکن ارباب اقتدار نے کبھی بھی افغانستان کے طرف دوستی کا ہاتھ اس طور پر نہیں بڑھایا بلکہ محض ضرورت کے تحت پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات روا رکھے جس کے باعث دونوں ملکوں میں تعلقات کبھی بھی سازگار نہیں رہے اور ہمیشہ سے ایک دوسرے کو شک کے نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ کرتارپور بارڈر کے کھولنے جانے کا قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر قبائلیوں نے بھی خیرمقدم کیا لیکن اس کے ساتھ ارباب اقتدار و اختیار سے یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ قبائلی علاقوں جو آپریشن کے باعث معاشی لحاظ سے تباہ ہوچکے ہیں یہاں کے افغانستان سے لاحق تجارتی راہداریاں کھولی جائیں تاکہ ان کے محرومیوں کو مداوا ہوں۔ پاک افغان بارڈرجو1893 میں ڈیورنڈ لائن کے طور پر کھینچا گیا،نقل و حمل کے لحاظ سے انتہائی موزوں ہے۔ پاک افغان بارڈرکی کل لمبائی پندرہ سو میل ہے۔ اگر ہم ماضی میں جائیں تو ڈیورنڈ لائن اس کا نام برٹش انڈیا کے سیکرٹری خارجہ ہینری مورٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا۔ یہ لائن برطانوی حکومت اور افغان بادشاہ عبدالرحمان خان کے درمیان معاہدے کے بعد کھینچی گئی۔برطانیہ نے روس کے خطرے کے پیش نظر انڈیا کو تین سرحدوں کے ذریعے روس سے جدا کیا۔پہلی سرحد فاٹا، دوسری ڈیورنڈ لائن اور تیسری روس اور افغان بارڈر رکھی تاکہ روس کی برصغیر پیش قدمی روکی جا سکے۔پا ک افغان سرحد پاکستان میں خیبر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان سے ملتی ہے جبکہ افغانستان کی طرف یہ سرحد شمال میں نورستان سے شروع ہو کر جنوب میں نمروز تک جاتی ہے۔دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں کے لئے پاک افغان بارڈر ایک سوفٹ بارڈر سمجھا جاتا ہے۔او رنقل و حرکت کافی آسان ہے۔ کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف ایک ہی طرح کی روایات، زبان اور کلچر والے لوگ ہیں۔۔سرحد کے دونوں اطراف خاندان بستے ہیں۔
اس بارڈر پر افغانستان کے ساتھ درجنوں تجارتی راہداریاں ہیں جن میں مشہور زمانہ طورخم اور چمن بارڈر بھی شامل ہے ، میرا تعلق خیبر پختونخوا میں نئے ضم ہونے والے قبائلی ضلع باجوڑ سے ہیں ، ضلع باجوڑ میں بھی افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سب سے طویل بارڈر ہے اور بارڈر کے دونوں اطراف ایک ہی قوم کے لوگ آباد ہیں ، خاص کر ماموند قوم کی ہزاروں لوگ بارڈر کے دونوں اطراف زندگی گذار رہے ہیں۔ باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ کئی راہداریاں ہیں لیکن میں ان مشہور غاخی پاس ، نواپاس ، لیٹئی سر اور کئی دیگر مقامات ہیں۔ گذشتہ آپریشن سے قبل یہ تمام راہداریاں آباد تھیں۔یہ راہداریاں صدیوں سے تجارت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔اسی لئے تاریخی لحاظ اس کی اہمیت صدیوں پرانی ہے۔دنیا میں ہمیشہ سے وسائل کی جنگ رہی ہے۔ وسائل کی ترسیل تجارتی راستوں سے ہوتی ہے اس لئے تجارتی راستے ہمیشہ دفاعی اہمیت کی حامل رہے ہیں۔ اس لئے ان شاہراؤں کو سیاسی، عسکری اور سٹریٹیجک راہداری بھی کہا جاسکتا ہے۔ پرانے زمانے میں لغڑئی کے مقام پر خشک سیلابی ریلے والا راستہ اور اس کے ساتھ ساتھ سفر کیا جاتا تھا بعد ازاں تحصیل ماموند میں سڑکوں کے جال بچنے کے بعد 1980کو افغانستان کے ساتھ بھائی چارے کو مزید مستحکم کرنے کیلئے لغڑئی بازار سے مغرب کے جانب غاخی پاس تک پختہ سڑک بارڈر تک تعمیر کی گئی ، جس سے روزمرہ کی آمد ورفت نہایت آسان ہوگئی۔ اور عنایت کلے سے روزانہ کے بنیاد پر تجارت کے ساتھ ساتھ لوکل ٹرانسپورٹ میں آنے جانے لگے، یہ راستہ نہایت محفوظ ہوگیا اس لحاظ سے یہ علاقہ موزوں ترین بن گیا تجارت کیلئے ، دوسرا اس روٹ کو تجارت کے لئے اس لئے بھی استعال کیا جاتا تھا کیونکہ پہاڑوں کی وجہ سے یہ محفوظ تصور ہوتا تھا اور لوٹ مار کا امکان کم رہتا تھا۔ اس کے باوجود اس روٹ پر تجارتی کافلوں کو لُو ٹا جاتاتھا۔ جس کی بنیاد پرمقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مگر اس روٹ پر لیوی فورس کے پہرے بھی مقرر کردیئے گئے جس کے بعد یہ راستہ مکمل محفوظ ہوگیا۔اسی طرح باجوڑ کے تمام دیگر راہداریوں پر آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیاں جاری تھی اور دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے غمی خوشی میں باآسانی شرکت کرسکتے تھے۔
لیکن پھر وہی ہواجو قبائلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا امریکہ کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی جس کے لیے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے تجارتی راہداریوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور یوں ہمارا معاشی قتل عام بھی شروع ہوگیا ۔ اب جب کہ امن کی فضا ہر سو بحال ہوچکی ہے ، سکھ یاتریوں کیلئے نرمی پیدا ہوسکتی ہے تو کیوں نہ باجوڑ میں غاخی پاس اور نواپاس بارڈر بھی کھلے جائیں تاکہ قبائلی عوام ایک بار پھر خونی رشتوں سمیت تجارتی سرگرمیوں کو دوام دے سکیں۔